ننگے پاؤں سماجی  تعمیر کی طرف: یاسمین لاری کے ساتھ گفتگو

ننگے پاؤں سماجی تعمیر کی طرف: یاسمین لاری کے ساتھ گفتگو

(یہ دو کے سلسلے میں دوسرا مضمون ہے- حصہ اول پڑھنے کے لیے اس لنک پر عمل کریں۔ انگریزی یہاں ہے۔)

یاسمین لاری گزشتہ ساٹھ سال سے آرکیٹیکٹچر کے شعبے کی نبض پر ان کا ہاتھ ہے۔ سن ۲۰۲۰ء میں انہوں نے جین ڈریو ایوارڈ بھی حاصل کیا جو خاص طور پہ خواتین آرکیٹیکٹس کے کام کو سراہتا ہے- ان کے ساتھ میری حالیہ گفتگو کا دوسرا حصہ ملاحضہ کریں ۔

کشور رضوی : آپ کے ابتدائی کام ہی سے آپ کا ماحولیات اور تاریخی ورثے کی حفاظت کے لئے کام میں دلچسپی عیاں ہیں۔ آپ کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ ماحولیات کس قدر خطرے کی زد میں ہیں۔ کیا آپ بتائیں گی کہ آپ تعمیراتی کام سے ماحولیات کی طرف کس طرح آئیں۔

یاسمیں لاری : گذشتہ بیس سال کے دوران پاکستان میں بہت سی قدرتی آفات اور ماحولیات پر موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہیں۔ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور مجھے یوں لگا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے تدرارک کے لئے کام کیا جائے ۔

۲۰۰۵ء میں جب آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تومیں لاہورمیں شاہی قلعہ میں کام کررہی تھی۔ اس زلزلے نے گویا ایک بار پھر باورکروا دیا کہ درحقیقت چیزوں کی اہمیت کیا ہے ۔ اچانک آپ کو احساس ہوتا ہے کہ کیا کام سب سے زیادہ اہم ہیں اور فوری کرنے چاہییں۔ میں اکثرسوچتی ہوں کہ اگر آپ مصیبت میں کسی کے کام آ سکیں تو آپ حقیقی معنوں میں خوش قسمت ہیں۔ ان حالات میں بھی مصیبت زدہ علاقوں میں پاکستانیوں کی مہمان نوازی قابل تعریف ہے۔ جب انہیں پتہ لگتا کہ ہم آئے ہیں تو فوراً اپنی چارپائیاں بچھا کر ہمارے لئے چائے بسکٹ اور انڈوں کا اہتمام کرتے جو کہ انہیں عالمی ادارہ خوراک نے ان مشکل حالات میں فراہم کیے تھے۔ میں یہ کبھی نہیں بھول سکتی۔

زلزلے کے وقت میں کراچی میں اپنا دفتر ختم کر چکی تھی اور آفات میں امداد کا مجھے کوئی تجربہ بھی نہ تھا ۔ ہاں کئ زمانے پہلے اپنی والدہ کو بھارت پاکستان تقسیم کے دوران امدادی کیمپ میں مہاجروں کی مدد کرتے دیکھا تھا اور شاید عملی پر وہی میرا واحد تجربہ کہا جا سکتا ہے۔

زلزلے کے دوران امداد کے لئے ہر طرح کے لوگ ملک کے کونے کونے سے کشمیر پہنچے۔ طالب علم، ڈاکٹر، اساتذہ، دوسرے ملکوں سے لوگ امداد کے لئے آئے۔ میری بچپن کی دوست جسٹس ناصرہ اقبال جو میرے ساتھ کوئین میری کالج میں ہوتی تھی، میری آمد کا سن کر لاہور سے خود ڈرائیو کر کے آیں اور ہم اکٹھے ان کی پرانی گاڑی میں سفر کرتے تھے ۔

تب میں نے نوکیا کمپنی کے تعاون سے ایک کیمپ خیبر پختونخواہ میں لگایا جہاں ہم نے مختلف مواد اور ٹیکنیک سے ایمر جنسی میں گھر بنانے کا کام کیا۔ ابتدا میں مٹی، چونا اور لکڑی کے دستیاب ٹکڑے استعمال کیے۔ ۲۰۰۹ ء کے بعد میں نے پہلی دفعہ بانس کا استعمال کیا اور یہ ایمرجنسی میں استعمال کے لئے بہترین ہے۔ یہ دو سال میں اُگ کر بڑا ہو جاتا ہے اور دیریا ہے ۔ یہ غریب گھرانوں کے لئے بہترین ہے مگر بطور ایک آرکیٹکٹ میں نے اس کے بارے میں کبھی غور نہ کیا تھا ۔ مگر اب ہم زیادہ تر بانس سے ہی تعمیرات کرتے ہیں کیونکہ یہ ایمرجنسی میں بہترین اور دیریا میٹریل ہے (تصویر نمبر ۱) ۔

بانس ایمرجنسی میں استعمال کے لئے بہترین ہے۔ یہ دو سال میں اُگ کر بڑا ہو جاتا ہے اور دیریا ہے۔

تصویر نمبر۱- خواتین کی پناہ گاہ ، سندھ (۲۰۱۱)۔ تصویر بشکریہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن-

مکلی، سندھ، میں ہم نے ایک ورکشاپ قائم کی ہوئی ہے جہاں میں بہت سے لوگوں کو بانس سے تعمیرات کے حوالے سے ٹریننگ فراہم کرتی ہوں۔ اتنے سالوں سے ہم نے بانسی تعمیرات کے بہت سے ڈیزائن بنائے۔ جن میں سے ایک جدید ڈیزائن ۲۰۱۵ ء میں آنے والے زلزلے کے بعد استعمال ہوا۔

۲۰۱۰ ء کے سیلاب نے پاکستان میں بہت تباہی مچائی۔ آپ کہیں بھی جائیں سیلاب سے متاثرہ لوگ ضرور ملیں گے۔ دس لاکھ گھر سیلاب سے متاثر ہوئے ۔ مجھے سب سے زیادہ احساس خواتین کا تھا جن کے گھر سیلاب کی نظر ہو گئے اور ان کے پاس سر چھپانے کا کوئی انتظام نہ رہا ۔

کشور رضوی : پاکستان میں پچیس فیصد آبادی خطِغربت سے نیچے رہتی ہے اوربیشمار لوگ بیگھر ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر جگہ شہری آبادی میں بہت سے لوگ ضرورت مند اور بے گھر ہیں ۔

یاسمین لاری : یہ بھی دراصل آفات ہی کے شکار لوگ ہیں، یہ ماحولیاتی اور آفات کی وجہ سے ہی بیگھ ہوئے اور تبدیلی اب تک ان کی آباد کاری نہ ہو سکی ہے۔ ۲۰۱۷ ء سے میں گداگروں کے ساتھ کام کر رہی ہوں جو مکلی کے قریب رہتے ہیں۔ ان سے رابطہ، سلطان ابراہیم کے مقبرے پر کام کے دوران ہوا۔ ہمیں یوایس اے ایمبیسیڈرفنڈ اور یونیسکو نے امداد فراہم کی جس کے ذریعے ہم نے آٹھ دیہاتوں میں۲۳۰ لوگوں جن میں خواتین بھی شامل ہیں کو مٹی کے برتن بنانے اور کاشی کاری کی تربیت دی۔ چونکہ خواتین عموماً آٹا گوندھ کر روٹی پکا سکتی ہیں تو اس طرح ان کو مٹی گوندھنے اور اس سے کاشیکاری سیکھنے میں مدد ملی۔ یہ خواتین اپنے کام میں بہت دلچسپی لیتی ہیں اور انتہائی لگن سے یہ کام کر رہی ہیں ۔

پہلے پہل اس کمیونٹی میں داخل ہونا مشکل تھا مگر ان کو ہمارے بنائے ہوئے کم لاگت والے بیت الخلاُ میں بہت دلچسپی پیدا ہوئی (تصویر نمبر۲)۔ خصوصاً عورتوں کو ہم نے ایک عورت کریمہ کو قائل کیا کہ وہ بیت الخلاُ کے عوض ہمارے سے کاشیکاری کی تربیت حاصل کر لے۔ اس پر وہ راضی ہو گئی ۔ اس سے وہ کمائی بھی کر سکے گی اور خودمختار بھی ہو جائے گی۔ وہ اپنے ساتھ دو عورتیں اور بھی لے کر آئی اور کچھ ہی عرصے میں بہت سی عورتیں ہماری تربیت لینے آنے لگیں۔ مختصر یہ کہ کچھ ہی دیر بعد وہ ٹائلیں بنا کر بیچنے لگی اور گداگری ختم کر دی ۔

میرا اصول ہے کہ کام کم لاگت ماحول دوست ہو اور اس میں کوئی چیز ضائع نہ ہو۔

تصویر نمبر۲- کم آمدنی والا بیت الخلاُ ، مکلی (۲۰۲۱) تصویر بشکریہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن-

میں نے "پاکستان چولہا" بھی ڈیزائن کیا جو کہ ایک اونچا چولہا ہے(تصویر نمبر۳)۔ یہ سستا اور آسانی سے تیار ہو سکتا ہے ۔ اور یہاں عورتیں آسانی سے کھانا اور روٹی تیار کر سکتی ہیں ۔ہم نے ایک عورت چمپا اوراس کے خاوند کانجی کو یہ چولہے بنانے کا طریقہ سکھایا تا کہ وہ اپنے علاقے میں مزید لوگوں کو یہ بنانا سکھا سکیں۔ چمپا اور اس کا خاوند بھی "ننگے پاؤں کاروباری" ہیں اور وہ خود بھی چولہے بناتے ہیں اور دوسروں کو بھی بنانے کا ہنرسکھاتے ہیں ۔

تصویر نمبر۳- پاکستان چولہ ، مکلی (۲۰۱۵)- تصویر بشکریہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن-

اب تک بنے ساٹھ ہزار چولہوں میں سے تیس ہزار ان دونوں میاں بیوی نے بنائے ہیں ۔ ایک چولہے کے وہ دوسو روپے لیتے تھے مگر ۲۰۱۹ء تک وہ اسی کام سے چھ لاکھ روپے کما چکے ہیں جو کہ ایک سو پچیس فیصد زیادہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم آمدنی والی چیزیں بنا کر فروخت کرنے سے بھی آمدنی ذرائع بن سکتے ہیں ۔

کشور رضوی : آپ خود انحصاری کے لئے ان کا کیا معاونت کر رہی ہیں اور کیسے ان کا معیار زندگی بسر بنا رہیں ہیں؟

یاسمین لاری : ہر کسی کی کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں جو کہ ان کے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہیں۔ چلی کے ماہر معاشیات منفریڈ میکس نیف نے غریبوں کی ضروریات کے بارے میں لکھا ہے ، جس سے میں بھت متاثر ھوی۔ پاکستان میں بیشمارلوگوں کے پاس ، پانی ، بیت الخلاُ اور صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ میرے لیے یہ اہم ہے کہ ہرخاندان کے پاس سر چھپانے کے لئے جگہ ہو۔ عورتوں کے لئے کم از کم ایک محفوظ کمرہ، بیت الخلا اور کھانا پکانے کے لئے چولہا اور پینے کا صاف پانی ۔

مکلی میں ہم نے دو سو تیس ایسے لوگوں کو تربیت دی جو پہلے گدا گری کرتے تھے ۔ یہ سماجی تبدیلی اور ماحولیاتی بہتری کے سفیر ہیں۔ میرا اصول ہے کہ کام کم لاگت ماحول دوست ہو اور اس میں کوئی چیز ضائع نہ ہو۔ دیہاتی لوگوں کو علاقے میں موجود اشیاء سے مٹی کی اینٹیں، بھوے، اور بانس سے ضروری تعمیراتی سامان بنانے کی تربیت دی جاتی ہے(تصویر نمبر۴)۔ چودہ ماہ میں بیشتر فیصد لوگ خط غربت سے باہر آئے ان میں سے پندرہ فیصد بھکاری تھے جو جان بوجھ کر معذور بنائے ہوئے تھے ۔ کوئی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ ہوسکتا ہے ۔

تصویر نمبر۴- زیرو کاربن کیمپس، مکلی، سندھ (۲۰۱۸)- تصویر بشکریہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن-

کشور رضوی: آپ کے بہت سے دیہاتی لوگ جھگیوں میں رہتے ہیں۔ کیا ان کو وہاں کے علاقے سے اٹھانے کے لیے کوئ دباؤ ہوتا ہے؟

یاسمین لاری : ہاں کبھی کبھار تو ان کے پاس محض چار لکڑیاں اور ایک کپڑا ہی ہوتا ہے۔ یہ اکثر تو نہیں ہوتا کہ انہیں وہاں سے اٹھایا جائے کیونکہ وہ عموماً کچےعلاقے میں ہی رہتے ہیں مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے جو گھر ہم نے بنانے سکھائے ہیں وہ تو مضبوط ہیں اور سیلاب سے نہیں بہتے مگردوسرے بہہ جاتے ہیں۔کئ دفع تو آفت اتنی شدید ہوتی ہے کہ ہم کچھ کر نہیں پاتے مگر میں یہ جانتی ہوں کہ کبھی کبھار تو لوگ چھ انچ پانی میں بھی بیگھرہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے جھونپڑے اتنے بُرے بنے ہوتے ہیں۔ بے گھر ہونا بہت ہی تکلیفدہ بات ہے خصوصاً عورتوں اور بچوں کے لئے کیونکہ پھر چار پانچ ماہ تک وہ بیگھر ہی رہتے ہیں اور محتاج ہو جاتے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ہم نے ایک سبزپناہ گاہ پروگرام شروع کیا جس میں ہم بیگھر لوگوں کو ایک محفوظ گھر,چھت پانی اور چولہا مہیا کرتے تھے جس کے عوض وہ دیہات میں ماحول کو صاف رکھنے کے لئے رضاکرانا کام کرتے تھے (تصویر نمبر۵)-

تصویر نمبر۵- پاکستان چولہ ، مکلی (۲۰۲۱) تصویر بشکریہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن-

کشور رضوی : آپ کیا سمجھتی ہیں کہ عمارت کار کے لئے آج کونسے فوری مسائل ہیں؟

یاسمین لاری : سب سے اہم یہ ہے کہ تعمیرات ماحولدوست ہوں ۔ دوسرے یہ کہ ہم غریب لوگوں کو کیسے تحفظ دے سکتے ہیں (تصویر نمبر٦)- ہم آفات کے لئے حفاظتی اقدامات کیسے کر سکتے ہیں ہم ایسے گھر بنائیں کہ وہ غریب لوگ آفات سے بے گھر نہ ہوں ۔ ایسے گھر جو آفات میں تباہ نہ ہوں ۔ میں نے دو بڑی قدرتی آفات میں گھر بنائے ہیں اور ان کے لئے مٹی ، چونا اور بانسوں کا استعمال کیا ہے اور میں یہ کہہ سکتی ہو ں کہ اگر یہ درست طریقے سے بنیں ہوں تو ان کے ذریعے پائیدار تعمیر ہو سکتی ہے اور ان کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑتی۔

غربت ایک حقیقت ہے، ماحولیات کی تبدیلی ایک حقیقت ہے اور نئ نسل کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

تصویر نمبر٦- زیرو کاربن کیمپس، مکلی، سندھ (۲۰۱۷)- تصویر بشکریہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن-

کشور رضوی : آپ نے جو کچھ کیا ہے، کیا آپ اسے دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے میں کامیاب ہیں تاکہ وہ اگلی نسل کے کام آ سکے؟

یاسمین لاری : جی ہاں۔ اپنے کام کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنا اور اپنے علم اور تجربے کو دوسروں تک پہنچانا بہت اہم ہے۔ یونیورسٹیوں کو بھی اپنے نصاب میں بدلتی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ غربت ایک حقیقت ہے، ماحولیات کی تبدیلی ایک حقیقت ہے اور نئ نسل کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ پہلے آرکیٹیکٹس یہ سمجھتے تھے کہ انہیں بس عمارات تیار کرنی ہیں مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ بس ان کا کام یہی نہیں ھے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آفات سے بچاؤ کی تربیت اور ان سے نبٹنے کی تربیت دی جائے۔ میرا خواب ہے کہ ہر یونیورسٹی میں ایک لیبارٹری ہو جہاں طالب علم نئے اور دیرپا مواد سے تعمیرات کرنا سیکھیں۔ اس پر تجربات کریں اور دنیا میں موجود ناہمواریوں کے لیے حل تلاش کریں۔

اس تحریر کا اردو ترجمہ زیب انساء عزیز نے کیا ھے ۔

مشاعر ذات حدة، الجزء الأول: البحث عن بغداد

مشاعر ذات حدة، الجزء الأول: البحث عن بغداد

ننگے پاؤں سماجی تعمیر کی طرف: یاسمین لاری کے ساتھ گفتگو- حصہ اول

ننگے پاؤں سماجی تعمیر کی طرف: یاسمین لاری کے ساتھ گفتگو- حصہ اول